سیاحت پاکستان کی بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔ پاکستان جغرافیائی اور روایتی اعتبار سے متنوع ہے، اور یہاں متعدد تاریخی اور ثقافتی ورثے کے مقامات ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح یہ تاریخی مقامات دیکھنے آتے ہیں، جس سے پاکستان کی سیاحت کی صنعت کو بہت فروغ ملتا ہے۔ مگر سیاحوں کی یہ بڑھتی ہویٔ تعداد ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور کوڑا کرکٹ اس کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔
پاکستان میں سیاحت کا فروغ
پاکستان کو خوبصورت، تاریخی اور مذہبی مقامات سے نوازا گیا ہے، جہاں بیرون ملک سے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ پاکستان کا شمالی علاقہ اپنی بلند چوٹیوں، گلیشیئرز، جھیلوں اور جنگلات کے لیے جانا جاتا ہے، جو نہ صرف ملکی سیاحت کو فروغ دیتا ہے بلکہ بیرون ملک سے لاکھوں سیاحوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کے تاریخی مقامات غیر ملکی سیاحوں کے لیے پرکشش ثابت ہوتے ہیں۔ سندھ میں تھرپارکر اور پنجاب میں چولستان کے صحراؤں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساحل خصوصاً بلوچستان میں بھی بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
گزشتہ سال سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز
سیاحت ان شعبوں میں سے ایک ہے جو COVID-19 جیسی وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، جس سے تمام براعظموں میں معیشتوں، معاش، عوامی خدمات اور مواقع متاثر ہوۓ تھے۔ جہاں ایک طرف عالمی وبا کے چلتے غیر ملکی سیاحت پر پابندی عائد ہوئی، وہیں دوسری طرف ملکی سیاحت میں ایک مثبت دلچسپی نظر آئی۔ کثیر تعداد میں لوگوں نے شمالی علاقاجات، مری اور گلیات کی سیر و سیاحت کی طرف رخ کیا۔ مگر جوں ہی ان عالمی پابندیوں میں کمی واقعی ہونے لگی، غیر ملکی سیاحت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ عالمی سیاحوں نے ایک بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف رخ موڑا اور اپنی دلچسپی ظاہر کی جس سے سیاحت کی صنعت ایک بار پھر سے ترقی کے راستے پر گامزن ہونے لگی۔
بڑھتی سیاحت کے پاکستان پر منفی اثرات
پاکستان میں سیاحت کی ترقی کے سب سے بڑے منفی اثرات میں سے ایک آلودگی ہے جو یہ سیاح ان خوبصورت جگہوں پر پھیلاتے ہیں، خاص طور پر کوڑے کی شکل میں۔ یقیناً ان میں سے زیادہ تر جگہوں پر کوڑے دان نہیں ہوتے ہیں جو سیاحوں کو اپنے کوڑے کو آسانی سے اور تیزی سے ٹھکانے لگانے میں مدد دیتے ہیں لیکن جہاں پر ہوتے ہیں وہاں پر بھی بہت سے لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس سے نہ صرف اس علاقے کی قدرتی خوبصورتی تباہ ہوتی ہے بلکہ اس علاقے کے جانوروں اور پرندوں کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے جو پلاسٹک کے کچرے سمیت اس کوڑے کو کھا سکتے ہیں۔
ایک اور منفی اثر یہ ہے کہ لوگ پودوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ان پر گاڑی چلا کر یا ان پر چل کر انہیں تباہ کر دیتے ہیں، اور کچھ لوگ کیمپنگ کے دوران لکڑیوں کے لیے درختوں اور چھوٹے پودوں کو بھی کاٹ دیتے ہیں۔ یہ ان علاقوں کے پودوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور آخر میں، سیاحت کا سب سے زیادہ مشتعل کرنے والا منفی اثر سیاحوں کی طرف سے جانوروں اور پرندوں کا غیر قانونی شکار ہے، جس کے نتیجے میں پہلے سے ہی شدید خطرے سے دوچار نسلیں ختم ہو سکتی ہیں۔
سیاحتی آلودگی کی روک تھام اور ہدایات
اب بڑا سوال یہ ہے کہ ہم ان جگہوں پر جانا نہیں روک سکتے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ لوگ ان جگہوں کا دورہ کرنا چھوڑ دیں کیونکہ سیاحت دنیا میں کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس مسٔلہ کو حل کرنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مشترکہ ثقافتی اور قدرتی ورثے کی دیکھ بھال کر یں اور اس کی حفاظت کو اپنا اخلاقی اور قومی فرض سمجھیں ۔ اس کوشش کو عمل میں لانے کے لیے حکومت اور انتظامیہ کو چاہیے کہ سیاحت سے پھیلنے والی آلودگی کی روک تھاپ کے لیے کچھ لازم ہدایات نافذ کریں جن پر عمل کو یقینی بنا کراس مسٔلہ کو روکا جا سکے ۔
سیاحوں کے لیے ہدایات
سیاحتی مقامات پر نکلتے وقت اپنا کوڑا کرکٹ ڈالنے کے لیے ایک بیگ ساتھ رکھیں۔ اس طرح آپ کو ان جگہوں کو صاف رکھنے میں مدد ملے گی۔
وہاں کے خوبصورت پودوں، جانوروں اور پرندوں کی تصاویر لیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں تاکہ آپ کے تمام دوست دیکھ سکیں۔
اگر آپ کو کوئی کوڑا نظر آئے تو اٹھائیں اور اپنے کوڑے کے تھیلے میں ڈال دیں۔
شائستگی سے دوسرے لوگوں سے کہیں کہ ان جگہوں پر کوڑا نہ پھینکیں۔
اگر آپ وہاں کیمپ لگا رہے ہیں اور آگ لگا رہے ہیں، تو یقینی بنائیں کہ آپ نے اس آگ کو مکمل طور پر بجھا دیا ہے تاکہ جنگل کو حادثاتی آگ سے روکا جا سکے۔
پرندوں اور جانوروں کا شکار نہ کریں۔
چٹانوں، غاروں یا درختوں وغیرہ پر اپنا نام یا انشائیہ نہ لکھیں، یہ ان جگہوں کی خوبصورتی کو تباہ کر دیتا ہے
اس علاقے کے مقامی لوگوں کو تنگ نہ کریں اور ان کے رسم و رواج کا احترام کریں۔
خلاصہ
حقیقتاََ،جہاں پاکستان میں سیاحت اقتصادی فوائد اور ثقافتی تبادلے کا باعث بنتی ہے، وہیں اس سے ماحولیاتی منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔اس مسٔلہ کو روکنے کے لیے کچھ مؤثر طریقوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ ذمہ دارانہ سیاحت کو فروغ دیا جاۓ اور ملک کے منفرد اور نازک ماحول کے تحفظ میں تمام متعلقین کوشامل کیا جاۓ۔ سیاحت کی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرکے، پاکستان اپنی سیاحتی صنعت کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنے قدرتی اورثقافتی ورثے کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
Leave a Reply