اگرچہ 2022-2023 میں پاکستان کا معاشی بحران ملک کی سیاسی بدامنی کا ایک بار بارنظر آنے والا عنصر ہے، لیکن اس میں ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرنے کے پیچھے بہت سے وجوہات ہیں ، جن میں ناقص گورننس، بےربط عدالتی نظام، فرسودہ قوانین، ٹیکس کا پیچیدہ نظام، شفافیت کا فقدان شامل ہیں۔ نیز غیر موثر بیوروکریسی، قدرتی اور آبی وسائل کا بے دریغ استعمال، موثر مقامی حکومت کی کمی، ملکی منصوبہ بندی کے لیے ناقابل اعتماد ڈیٹا، اور سرکاری محکموں کی جانب سے پالیسیوں کے عملدرآمد کے طریقوں میں مسلسل خامیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اقتصادی ترقی کو بڑھانے کی کوششوں کے باوجود پاکستان کی جی ڈی پی(GDP) کی شرح نمو ہمیشہ اپنی صلاحیت سے کم رہی ہے۔ اہم شعبوں کی ترقی اور سرمایہ کاری کے امکانات ناکافی ریونیو(Revenue) اکٹھا کرنے، ساختی مسائل اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے رکاوٹ بنے۔
افراط زر
پاکستان کی معاشی حالت چند سالوں سے غیر مستحکم ہے جسکی وجہ سے اشیائے خوردونوش، پیٹرول اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی تقریباً 45 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو عام آدمی کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ دوسری طرف عوام کی بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ریاستی ادارےعوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں- بہت سے مسائل کی طرف حکومت کی توجہ بھی نہیں ہے اس کی ایک اہم وجہ خراب انتظامیہ اور نظام میں پھیلی ہٹ دھرمی ہے۔ نظام میں بہتری اسی صورت میں آ سکتی ہے اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کے کام کریں ۔ اور حکومتی نظام میں انصاف پسندی،اور احتساب ہو اور کم از کم 15 سال کے لیے معاشی پالیسیوں میں کوئی تبدیلیاں نہ لائی جائیں۔
ٹیکس کا نظام
دیگر پریشان کن مسائل بھی موجود ہیں، جو ہماری معیشت کی توسیع میں رکاوٹ ہیں۔ ٹیکس ادائیگیوں میں پاکستان بین الاقوامی سطح پر 173ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کے تجزیے کے مطابق، پاکستانی کاروباری افراد ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات، آئرلینڈ، ملائیشیا، سری لنکا اور بھارت کے مقابلے میں سالانہ 47 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ پاکستان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔اگر ہم مثال کے طور پر سمجھیں صرف ایک کاروبار جو پاکستان کے چار مختلف صوبوں میں سالانہ کاروبار کرتا ہے% 5 کارپوریٹ انکم ٹیکس، 12 آجر کی طرف سے ادا کی جانے والی پنشن کی شراکت، 12 سماجی تحفظ کی ادائیگی، 1 پراپرٹی ٹیکس، 1 پروفیشنل ٹیکس، 1 گاڑی کاٹیکس، 1 سٹیمپ ڈیوٹی کی ادائیگی، 1 ایندھن ٹیکس کی دائیگی، اور سامان اور سیلز ٹیکس کی 12 ادائیگیاں کرتا ہے۔ جو بھی ٹیکس کاروبای طبقہ دیتا ہے وہ حکومت کا نظام چلانے کے لیے ضرروی ہے لیکن ان کا نفاز زمینی حقائق کے بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس طبقے کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (EOBI) اور پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (PESSI) اور صوبائی سیلز ٹیکس سے متعلق ٹیکس کی ادائیگیوں کی ماہانہ تعدد کو سال میں ایک بار کم کیا جانا چاہیے۔ IT سے چلنے والے ٹیکس سسٹم کے طریقہ کار کو استعمال کرنے سے ٹیکس فائلنگ اور اسی ادائیگی کے نظام کو بہتر بنا جاسکتا ہے۔
ایز آف ڈوئنگ بزنس(Ease of Doing Business)
ورلڈ بینک کے ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس کے مطابق پاکستان ٹیکس کے اصولوں کی تعمیل کے لحاظ سے دنیا میں مجموعی طور پر136/172ویں نمبر پر ہے ۔ ان رینکنگ کے مطابق اس وقت معاشی سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹیں حکومت کے پیچیدہ نظام، شفافیت کا فقدان اور ٹیکس کے پیچیدہ قوانین اور ضوابط ہیں۔ مزید برآں، زرمبادلہ کی آمدنی کو بڑھانے کے لیے، وفاقی حکومت کو برآمدات کے فروغ کی حکمت عملیوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ برآمدی مسابقت کو بڑھا کر، برآمد کنندگان کی حمایت، اور تجارتی معاہدوں اور سفارتی کوششوں کے ذریعے نئی منڈیوں کو تلاش کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔
آمدنی کا تخمینہ خسارہ
پاکستان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی رقم جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے کم تناسب کی وجہ سے، مالیاتی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے قرض لینے اور بیرونی مدد پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مسلسل قومی بجٹ خسارہ ہی رہتا ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت آمدنی سے زیادہ خرچ کرتی ہے۔ قومی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں قرض کی ادائیگی کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بجٹ زیادہ تر قرض اترنے کے حصول کے استعمال کیا جاتا ہے؛ سماجی بہبود اور ترقیاتی اقدامات کے لیے بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ زیرِ گردش قرض ( Circular debt ) پاور سیکٹر مالیات پر نمایاں منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔
پاکستان کے بہتر مسقبل کے لیےسفارشات
زیادہ سے زیادہ افراد اور کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لا کر ٹیکس انتظامیہ کو مضبوط کرنا اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنا۔
بہرونی ذرائع سے حا صل کردہ قرضوں سے نجات پانے کے لیے ایک مضبوط قرض کے انتظام کی حکمت عملی بنانے کی ضرروت ہے۔
سرمایہ کاری اور روزگار کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کے لیے، ضابطوں کو ہموار کرکے اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کرکے کاروبار کو آسان بنانا بہت ضروری ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو سپورٹ کرنا اور مشورے اور علم کے لیے غیر ملکی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
اصلاحات کو انجام دینے، آمدنی کی وصولی کو بڑھانے، اور طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے وسائل کی موثر تقسیم کو یقینی بنانے کے لیےحکومت، کارپوریٹ سیکٹر، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
خلاصہ
موجودہ دور میں پاکستان کا معاشی بحران سیاسی ابتراؤ اور نظامی انقلاب کے اثرات کے باوجود، اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے کئی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ کمزور گورننس، پیچیدہ ٹیکس نظام، قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے ملکی معاشی ترقی میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کو آئندہ دور میں اصلاحات کی راہوں کو اپنانے، انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے، معاشی حکومتیں کی تعاون کو بڑھانے، اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرکے ترقی کی منزل کو ہدایت دینے کی ضرورت ہے۔
Leave a Reply